Thursday, August 31, 2023

موضوع: بے سند بات حجت نہیں بن سکتی! ‏

بسم الله الرحمن الرحيم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محمد اقبال قاسمي سلفي

موضوع: بے سند بات حجت نہیں بن سکتی! 

 عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے ہمارے اس امر ( دین ) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے ۔‘‘ 
صحیح مسلم: 4492

عن  عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جس نے ایسا عمل کیا ، ہمارا دین جس کے مطابق نہیں تو وہ مردود ہے ۔‘‘ 

صحیح مسلم: 4493

 ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : مَنْ يَقُلْ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ .
سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا :جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔
(صحیح بخاری: 109)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شرح نخبہ میں فرماتے ہیں: علماء کا اتفاق ہے کہ موضوع حدیث بیان کرنا حرام ہے، سواۓ اس کے, کہ وہ اس کے موضوع ہونے کی تصریح کردے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
من حدث عني بحديث يرى انه كذب فهو احد الكاذبين۔ 
جو شخص مجھ سے حدیث نقل کرے اور وہ خیال کرتا ہو کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ خود جھوٹا ہے۔ (مقدمہ صحیح مسلم) بحوالہ شرح نخبہ۔ 
 عَنْ الْمُغِيرَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ : إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ . 
 
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نے نبی کریم ﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے جو شخص بھی جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے ۔
(صحیح بخاری: 1291) ،

موضوع حدیثیں بیان کرنے والا جھوٹا دجال ہے۔ 
عن ابي هريرة يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ»
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ آخری زمانے میں ( ایسے ) دجال ( فریب کار ) کذاب ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے آباء نے ۔ تم ان سے دور رہنا ( کہیں ) وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں ۔‘‘ 
(صحیح مسلم: حدیث نمبر : 16) 


علامہ علاءالدین حصکفی صاحب در مختار فرماتے ہیں: موضوع روایات پر تو بہر صورت عمل جائز نہیں ہے، نیز اسے بیان کرنا بھی جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ ساتھ ساتھ اس کے موضوع ہونے کو بتا دیا جائے۔ (در مختار: ص 87) 
 عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں:

عَبْدَ اللهِ بْنَ الْمُبَارَكِ، يَقُولُ: «الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ.
 
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اسناد ( سلسلہ سند سے حدیث روایت کرنا ) دین میں سے ہے ۔ اگر اسناد نہ ہوتا تو جو کوئی جو کچھ چاہتا ، کہہ دیتا ۔ 
(صحیح مسلم: 32) 

امام ابوعبد اللہ الحاکم فرماتے ہیں: اگر اسناد نہ ہوتی، محدثین کرام اس کی طلب اور اس کی حفاظت و صیانت کا مکمل اہتمام نہ فرماتے تو مینارۂ اسلام منہدم ہوچکا ہوتا ، ملحدین اور بدعتیوں کو حدیثیں گڑھنے اور اسانید کو الٹ پلٹ کرنے پر قدرت ہوجاتی؛ کیوں کہ احادیث جب اسانید سے خالی ہوں گی تو وہ بے اعتبار ہوکر رہ جائیں گی ۔ (معرفۃ علوم الحدیث ،ص : 115)

 سفیان ثوری رَحْمَہ اللہ فرماتے ہیں: الَإسْنَادُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ , فَإِذَا لَمْ يَكُنْ مَعَهُ سِلَاحٌ , فَبِأَيِّ شَيْءٍ يُقَاتِلُ ؟ یعنی : اسناد، مومن کا ہتھیار ہے، جب اس کے پاس ہتھیار ہی نہیں ہوگا تو وہ کس چیز سے جنگ لڑے گا ۔( کتاب المجروحین، ص:31)

عبد اللہ بن مبارک رحمہ الله فرماتے ہیں : بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْقَوَائِمُ: یَعْنِي الِاسْنَادَ۔ یعنی : ہمارے (محدثین) اور دوسرے لوگوں کے درمیان قابل اعتماد چیز اسناد ہے ۔
(مقدمہ مسلم) 

 ابواسحاق ابراہیم بن عیسی طالقانی کہتے ہیں:  میں نے عبداللہ بن مبارک سے کہا : ابوعبدالرحمن ! ( وہ ) حدیث کیسی ہے جو ( ان الفاظ میں ) آئی ہے :’’ نیکی کے بعد ( دوسری ) نیکی یہ ہے کہ تم اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزے کے ساتھ اپنے والدین کے لیے روزے رکھو ؟‘‘ کہا : عبداللہ ( بن مبارک ) نے کہا : یہ کس ( کی سند ) سے ہے ، کہا : میں نے عرض کی : یہ شہاب بن خراش کی ( بیان کردہ ) حدیث ہے ، انھوں نے کہا : ثقہ ہے ، ( پھر ) کس سے ؟ کہا : میں نے عرض کی : حجاج بن دینار سے ، کہا : ثقہ ہے ، ( پھر ) کس سے ؟ کہا : میں نے عرض کی : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ کہنے لگے : ابواسحاق ! حجاج بن دینار اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان کٹھن مسافتیں ہیں جن کو عبور کرتے ہوئے اونٹنیوں کی گردنیں کٹ ( کر گر ) جاتی ہیں
(مقدمہ صحیح مسلم: حدیث نمبر :32) 
 
علامہ پڑہاروی حنفی شارح شرح عقائد کوثر النبی میں لکھتے ہیں: 

ان لوگوں کی روش پر تعجب ہے، جو علومِ حدیث سے بالکل ناواقف ہیں ،(اس کے باوجود حدیث کے معاملہ میں محدثین کاسہارالینے کے بجائے) ان کے ساتھ تعصب کارویہ رکھتے ہیں،( جس کااثریہ ہے) کہ وہ موضوع روایات بیان کرنے میں مبتلا ہوتے ہیں ،اس کی وجہ سے احادیث نبویہ میں وارد بہت بڑی وعید کے مستحق بن جاتے ہیں؛ حالاں کہ ہم نے حق وباطل کوالگ الگ سمجھادیاہے ، اس کے بعدبھی یہ اپنے (جاہل) آبا واجداد کے غلط طرزعمل کی پیروی کرنے سے چھٹکارہ نہیں پاتے،(ایسے ہی لوگوں کی ایک نوع کے بارے میں ارشادربانی ہے )اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ اللہ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکامات کی پیروی کرو، تو یہ لوگ جواب میں کہنے لگتے ہیں: نہیں، بلکہ ہم تو اس رسم ورواج کی پیروی کریں گے،جس پر ہم نے اپنے آباوٴ اجداد کو دیکھا تھا،(یہ لوگ ایساکرنے پربضد ہیں) اگر چہ ان کے آباوٴ اجداد کچھ نہ سمجھتے تھے اور نہ ہی راہ راست پرتھے.

علامہ سخاوی لکھتے ہیں: اس لئے کہ نبی کریم ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا ایسا نہیں ہے جیسا کہ مخلوق میں سے کسی دوسرے انسان کی طرف منسوب کردینا۔ کیونکہ ارباب علم و بصیرت نے یہ اتفاق کیا ہے کہ یہ کام گناہ کبیرہ میں سے سب سے بڑا گناہ ہے۔اور متعدد علماء دین اور ائمہ نے ایسے شخص کی توبہ قبول نہ ہونے کی صراحت فرمائی ہے۔ بلکہ شیخ ابو محمد جوینی نے تو ایسے شخص کو کافر کہاہے اور اس کے فتنے اور نقصانات سے ڈرایا ہے۔ 
(المقاصد الحسنه صفحہ نمبر: 4) 

مناظر دیوبند مولانا طاہر حسین گیاوی حنفی دیوبندی " انگشت بوسی سے بائیبل بوسی تک" میں 12-13 پر لکھتے ہیں: 
جس طرح حضور اکرم ﷺ کے فرمان کا انکار کرنا محرومی اور تباہی کا باعث ہے، اسی طرح کسی دوسرے کی بات کو حضور ﷺ کا فرمان بتانا بھی عظیم ترین گناہ اور کفر کا سبب ہے۔ 
(انگشت بوسی سے بائیبل بوسی تک: از مناظر دیوبند مولانا طاہر حسین گیاوی صفحہ نمبر: 12)

فقہاء کا کوئی اعتبار نہیں! 

ملا علی قاری حنفی تذکرۃ الموضوعات میں فرماتے ہیں: 

"صاحب ہدایہ یا دوسرے شارحین ہدایہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ فقہاء ہیں ، محدثین نہیں ہیں "

اس بات کو نقل کرنے کے بعد مولانا عبدالحئ حنفی فرماتے ہیں: 

ملا علی قاری کی تحریر سے ایک بہت مفید بات معلوم ہوئی وہ یہ کہ فقہ کی کتابیں اگرچہ اپنی جگہ مسائل فقہی میں معتبر ہیں اور اگرچہ ان کے مصنفین بھی قابل اعتماد ہیں اور فقہاء کاملین میں سے ہیں لیکن ان سب کے باوجود ان سے جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں ، ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ محض ان کتابوں میں ہونے کی وجہ سے ان کے ثبوت کا یقین کیا جا سکتا ہے۔ 
مقدمہ عمد ۃ الرعایہ: 13

احمد رضا خان لکھتے ہیں: اسی وجہ سے علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں اور ان کے شاگرد نے حلیہ میں تحریر فرمایا ہے کہ کسی چیز کا سنت ہونا حدیث ضعیف سے ثابت نہیں ہو سکتا۔ 
(فتاویٰ رضویہ جلد اول صفحہ نمبر: 12) 

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی تحفہ اثنا عشریہ میں تحریر فرماتے ہیں:
 اہل سنت کے نزدیک حدیث قابل اعتبار اسی وقت ہوگی جب باسند محدثین کی کتابوں میں پائی جاۓ۔ اور اس پر درست ہونے کا حکم بھی لگایا گیا ہو اور بے سند حدیث اہل سنت کے یہاں بے نکیل کا اونٹ ہے جس پر محدثین کوئی دھیان نہیں دیتے۔

(تحفہ اثنا عشریہ صفحہ نمبر: 494)

مناظر دیوبند مولانا طاہر حسین گیاوی تحریر فرماتے ہیں کہ " بنیادی طور پر دیوبند و بریلی کا مسلمہ اصول ہے کہ ثبوت کے لئے قرآن و حدیث، اجماع یا قیاس ہی پیش کئے جا سکتے ہیں ، الف لیلیٰ کے قصوں ، خواب و خیال کی حکایتوں اور افسانوی واقعات سے کسی چیز کا ثبوت نہیں ہوتا۔ 

(انگشت بوسی سے بائیبل بوسی تک: صفحہ نمبر 83- 84) 

اہل تجربہ کی ارشادی باتیں کسی چیز کے ثبوت و ممانعت کے لئے کافی نہیں ہیں: دیوبندی و بریلوی کا متفقہ فیصلہ! 
چنانچہ بانی رضاخانیت مولانا احمد رضا خان سے پوچھا گیا: 
علماء میں مشہور ہے کہ اپنے دامن آنچل سے بدن نہ پوچھنا چاہیے اور اسے بعض سلف سے نقل کرتے ہیں۔ اور رد المحتار میں فرمایا: دامن سے ہاتھ منہ پوچھنا بھول پیدا کرتا ہے ۔ 
اقول( احمد رضا خان صاحب فرماتے ہیں) یہ اہل تجربہ کی ارشادی باتیں ہیں ، کوئی شرعی ممانعت نہیں۔ 
(فتاویٰ رضویہ جلد اول صفحہ نمبر: 30)
اس فتوے کی تشریح کرتے ہوئے مناطر دیوبند مولانا طاہر حسین گیاوی صاحب لکھتے ہیں: اعلحضرت کے اس قاعدے سے معلوم ہوا کہ کسی معاملے میں اہل  تجربہ کی ارشادی باتیں چاہے سلف صالحین سے ہی کیوں نہ نقل کی گئی ہوں وہ نہ شرعی حجت ہیں اور نہ کسی چیز کے ثبوت و ممانعت کے لیے کافی ہو سکتی ہیں ۔ 
(انگشت بوسی سے بائیبل بوسی تک: صفحہ نمبر: 85)

سب سے زیادہ جھوٹ بزرگوں نے حدیث میں گھڑا ہے!! 
یحیی بن سعید فرماتے ہیں: ما رأيت من الصالحين اكذب منهم فى الحديث. 
حديث رسول میں بزرگوں سے زیادہ جھوٹا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ 

(مقدمہ صحیح مسلم)

ابن عدی فرماتے ہیں: بزرگوں نے تو عادت بنالی ہے کہ فضائل اعمال میں ضعیف اور موضوع روایت ہی بیان کریں گے۔ 
(شرح علل الترمذی: 115) 

حافظ ابو عبداللہ بن مندہ فرماتے ہیں: 
 اذا رايت في حديث حدثنا فلان الزاهد فاغسل يدك منه. 
جب کسی حدیث تم یہ دیکھو کہ فلاں بزرگ نے ہم سے روایت کیا ہے تو تو اس حدیث سے اپنے ہاتھ دھو لو۔ (شرح علل الترمذی: 113)

امام نووی فرماتے ہیں: اور ایسا اس وجہ سے کہ صوفیاء حضرت محدثین جیسی مشقتیں برداشت کرنا گوارہ نہیں کرتے لہذا ان کی روایتوں میں غلطی واقع ہوتی ہے اور انہیں اس کی پہچان نہیں ہوتی اور وہ جھوٹ نقل کردیتے ہیں حالانکہ وہ اسے جھوٹ نہیں سمجھ رہے ہوتے۔ 

صحابہ اور تابعین کے تفسیری اقوال میں  مضبوط سند والی روایات ہی قبول کی جائی گی۔
(مقدمہ ابن تیمیہ)

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: تین چیزیں ایسی ہیں جس میں اسناد نہیں ہوتی ۔تفسیر ، ملاحم اور مغازی ۔اس طرح کی اکثر روایات منقطع یا مرسل ہوتی ہیں۔

اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: 

اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح و انبساط نہیں رہتا بلکہ اول قلب میں استنکار پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے ، خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسری قوی دلیل اس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں  بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو ، بلکہ خود اپنے دل میں اس تاویل کی وقعت نہ ہو، مگر نصرت مذہب ک لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر صحیح و صریح حدیث پر عمل کر لیں۔

(تذکرۃ الرشید ،1/ 131)

No comments:

Post a Comment

Recent posts

وقف ترمیمی بل

عامۃ المسلمین میں ایسے کئی لوگ ہوسکتے ہیں جو نئے وقف قانون کی باریکیوں سے واقف نہ ہوں اسی لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس پر تفصیلی گفتگو ہو۔ م...