Wednesday, March 27, 2024

رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ جہنم سے خلاصی ہے ۔

بسم الله الرحمن الرحيم 

السلام عليكم و رحمة الله وبركاته

مولانا اقبال قاسمي سلفي

مصادر : مختلف مراجع و مصادر 

موضوع : رمضان کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ جہنم سے خلاصی ہے ۔

ضعیف اور موضوع روایات پر عمل کرنے والے دیوبندی اور رضاخانی علماء اور مفتیان رمضان کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے اکثر یہ روایت نقل کیا کرتے ہیں ۔

عن سلمان الفارسي رضي الله عنه أنه قال: ( خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر يوم من شعبان فقال : أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم مبارك ، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر ، جعل الله صيامه فريضة ، وقيام ليله تطوعاً ، من تقرب فيه بخصلة من الخير كان كمن أدى فريضة فيما سواه ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدّى سبعين فريضة فيما سواه ، وهو شهر أوله رحمة وأوسطه مغفرة ، وآخرهوأوسطه مغفرة ، وآخره عتق من النار۔

سلمان الفارسي رضي الله تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے لوگو تمہارے اوپر ایک عظیم بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اللہ نے۔، جس کے روزوں کو فرض قرار دیا ہے اور اس کی راتوں میں قیام کرنے کو نفل ، اس ماہ میں جس کسی نے کوئی نیکی کی وہ اور مہینوں کے فرض کے برابر ہے اور جس نے اس مہینے میں فرض ادا کیا تو گویا اس نے ستر فریضہ ادا کیا۔اور یہ ایسا مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے،درمیانی مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ جہنم سے خلاصی ہے ۔

یہ حدیث احادیث ِ نبوی کے مشہور مجموعہ مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصوم میں شامل ہے۔ صاحب ِ مشکوٰۃ نے اس کے سلسلے میں امام بیہقی کی شعب الایمان کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ابن خزیمہ کی صحیح، ابن حبان کی کتاب الثواب، سیوطی کی تفسیر الدر المنشور اور متقی ہندی کی کتاب کنز العمال اور دیگر کتابوں میں بھی مروی ہے۔


 یہ حدیث حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت سے مشہور ہے ، ان سے متعدد اسانید سے وارد ہے ،چند اسانید ملاحظہ فرمائیں :

۱۔ پہلی سند 

 عن علي بن حُجر السَّعدي المروزي ، حدثنا يوسف بن زياد ، حدثنا همام بن يحيى ، عن علي بن زيد بن جدعان ، عن سعيد بن المسيب ، عن سلمان به.

تخریجہ :
أخرجه بهذا الإسناد ابن خزيمة في "صحيحه" (1887) وابن أبي الدنيا في "فضائل رمضان" (41) وابن شاهين في "فضائل شهر رمضان" (16) والبيهقي في "فضائل الأوقات" (37 و38) وفي "الشعب" (3336) وغيرهم ۔

اسناد کا حال :
إس کی سند واہی ہے ، اس میں يوسف بن زياد أبو عبد الله البصري ہے ۔ امام بخاری ، ابو حاتم اور ساجي نے اسے منكر الحديث قرار دیا ہے، امام نسائيفرماتے ہیں: ليس بثقة، ابن حجر فرماتے ہیں: يوسف ضعيف جدا ، كما في "كنز العمال" (8/ 477) عقيلي اور ابن حبان نے اسے "الضعفاء" میں ذکر کیا ہے ۔
اس کے علاوہ اس سند میں علی بن زید بن جدعان ہے جسے حافظ ابن حجر عسقلانی ،یحی بن معین ، امام نسائی ، علامہ ذہبی جیسے مستند و معتمد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔

٢- دوسری سند

  عبد الله بن بكرالسَّهمي، عن إياس بن أبي إياس ، عن علي بن زَيد ، عن سعيد بن المسيب ،عن سلمان .
تخریجہ :
أخرجه الحارث في "مسنده" كما في "زوائده"ص112والعقيلي في "الضعفاء" 1/ 35 وابن أبي حاتم في "علل الحديث" 1/249 ۔
وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" (5/ 223) برقم 3336 فسماه (إياس بن عبد الغفار ).

اسناد کا حال : عقيلي إياس کے بارے میں فرماتے ہیں : "مجهول وحديثه غير محفوظ". اهـ.
علامہ ذهبي " الميزان " (1/282) میں فرماتے ہیں: إِيَاس بن أبي إِيَاس عَن سعيد بن الْمسيب لَا يعرف ، وَالْخَبَر مُنكر.
 أبو حاتم "العلل" 1/249 میں فرماتے ہیں : وقد سأله ابنه عن هذا الحديث : هذا حديث منكر غلط فيه عبد الله بن بكر، إنما هو (أبان بن أبي عياش) فجعل عبد الله بن بكر: "أبان" : "إياس".
نیز سند میں علی بن زید بن جدعان راوی ہے جسے جمہور معتبر و معتمد محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔

٣- تیسری سند 

 يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّار ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ سَلْم، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ .

تخریجہ :
أخرجه ابن شاهين في "فضائل شهر رمضان" (15) ۔

اسناد کا حال :

اس کی سند بھی واہی ہے۔ اس سند میں موجود يحيى بن سعيد العطار کے بارے میں ابن معين فرماتے ہیں: ليس بشيء ،
 عقيلي اور جوزجاني نے اسے منكر الحديث قرار دیا ہے۔
، وضعفه ابن حبان .


٤۔ چوتھی سند 
 سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَوَابٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجُدْعَانِيُّ القُرشي أبو وهب ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ...

تخریجہ :
أخرجه المحاملي في "الأمالي" (ص: 286) وابن عدي في "الكامل" (6/512) وابن الشجري كما في "ترتيب الأمالي الخميسية" (2/ 16) ، وقال : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ...إلخ فزاد متابعة قتادة لعلي بن زيد .

اسناد کا حال :
عبد العزيز القرشي تكلم فيه ابن عدي. وقال: هو القرشي البصري، ثم ساق له هذا الحديث ، وقال : عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات.( الكامل 6/512 ، ميزان الاعتدال 2/630).

جیساکہ واضح ہوگیا کہ اس حدیث کی کوئی بھی سند ضعیف راویوں سے خالی نہیں ہے ، مزید بر آں کہ مذکورہ تمام اسانید کا دار ومدار (علی بن زید بن جدعان ) پر ہے، جس پر محدثین کی سخت جرحیں ہیں۔ تمام مشہور ناقدین حدیث مثلاً حافظ ابن حجر، احمد، یحییٰ بن معین، نسائی، ابن خزیمہ جوز جانی، دار قطنی، ابو زرعہ، عقیلی، ذہبی وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔

اس حدیث کے ضعف کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس روایت کو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مشہور تابعی سعید بن مسیب روایت کرتے ہیں جب کہ حضرت سلمان فارسیؓ سے حضرت سعید بن المسیب کی ملاقات ثابت نہیں ہے، اس بنا پر یہ روایت منقطع بھی ہے۔

ابو حاتم رازی نے "العلل" میں کہا : (هذا حديث منكر).
عقيلی نے "الضعفاء الكبير" میں فرمایا : (قد رُوي من غير وجهٍ، ليس له طريقٌ ثبتٌ بيّن).
ابن خزيمہ نے"صحيح" میں تخریج کرتے ہوئے لکھا ہے : (إن صحّ الخبر).
ابن عدی نے روایت پیش کرنے کے بعدراوی کے بارے میں کہا : عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات ۔
ابن حجر "اتحاف المهرة" میں تحریر فرماتے ہیں : (مَدارُه على علي بن زيد، وهو ضعيفٌ).

یہ منکر روایت اس صحیح روایت کے بھی خلاف ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کی یہ خصوصیات کسی خاص عشرے کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ پورا ماہ ہی ان خصوصیات کا حامل ہے ۔ 
 چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ 
جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا ۔ اور ایک اعلان کرنے والا منادی کرتا ہے : اے نیکی کے طلب گار ، آگے بڑھ اور اے برائی کے طلب گار رک جا ۔ اور اللہ تعالیٰ جہنم سے ( بعض ) لوگوں کو آزاد کرتا ہے ۔ ( رمضان میں ) ہر رات اسی طرح ہوتا ہے ۔‘‘

سنن ابن ماجہ : ابن ماجہ : حدیث نمبر : 1642



اللهم اردنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و ارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه !

No comments:

Post a Comment

Recent posts

وقف ترمیمی بل

عامۃ المسلمین میں ایسے کئی لوگ ہوسکتے ہیں جو نئے وقف قانون کی باریکیوں سے واقف نہ ہوں اسی لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس پر تفصیلی گفتگو ہو۔ م...